Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

ایک ہفتہ گزر گیا تھا اماں جان کو ہسپتال میں ایڈمٹ ہوئے اس عرصے میں ان کی طبیعت بہتری کی طرف گامزن تھی ،وہ پرائیویٹ روم میں شفٹ ہو گئی تھیں روزانہ عیادت کیلئے گھر کے لوگوں کے علاوہ عزیز و اقارب بھی آتے تھے ،مسز عابدی تقریباً روز ہی آ رہی تھیں دوبارہ عابدی صاحب بھی آئے تھے وگرنہ شیری ہی ان کے ہمراہ ہوتا تھا۔
اماں جان کبھی کسی بیماری سے شکستہ نہیں ہوئی تھیں لیکن اس بار وہ ہار بیٹھی تھیں ان کی بوڑھی آنکھوں میں ہر دم بھیگی بھیگی ی دھندلاہٹ رہنے لگی تھی اور لب بھی بہت کم وا ہوتے تھے ،زیادہ تر وہ آنکھیں بند کرکے لیٹی رہتی تھیں ان کے پاس پری رہ رہی تھی۔
پہلے ان کی بیماری نے کم دلا دہلایا تھا کہ مستزادان کی خاموش و سب سے بے پروا انداز نے اس کے کمزور سے دل میں عجیب سا ڈر بٹھا دیا تھا اب بھی وہ کب سے ان کے زرد چہرے کو دیکھ رہی تھی جو دواؤں کے زیر اثر اردگرد سے غافل مدہوش لیٹی تھیں۔


”اماں جان! سارے لاڈ اپنی لاڈلی کیلئے ہی وقف کر دیئے ہیں آپ نے ہمارے بچوں کیلئے تو کوئی ممتا ہی نہیں ہے آپ کے پاس۔
“ عامرہ آصفہ جب بھی میکے آتیں ان کی یہی شکایت ہوتی تھی۔
”پروردگار گواہ ہے یہ تمہارے دلوں کا بغض ہے ورنہ میں تو تمام بچوں کو ہی پیار کرتی ہوں ،بیٹے و بیٹیوں کی اولادیں مجھ کو یکساں عزیز ہیں۔“
”رہنے دیں اماں! آپ ہر وقت گود میں اس پری کو چڑھائے رکھتی ہیں ،ہمارے بچے تو آپ کی گود سے محروم رہیں گے۔ یہ ڈائن ہمارے ساتھ ہمارے بچوں کا حق بھی ہڑپ کر رہی ہے ناگن ماں کی ناگن اولاد۔
”ارے اللہ کے غضب سے ڈرو تم لوگ ،کیوں ہاتھ دھو کر اس معصوم کے پیچھے پڑی رہتی ہو ،اس غریب کو بخش دو اس کی ماں تو اس سے جدائی ہوئی ہے ساتھ باپ نے بھی اس بے قصور کی طرف دیکھنا چھوڑ دیا ہے ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی وہ اپنی ہی بیٹی کی پرچھائی سے بھی نفرت کرتا ہے۔“ وہ اس کو سینے سے لگا کر رو پڑتی تھیں۔
”جس عورت نے وفا نہ کی تو اس کی بیٹی سے فیاض کس طرح وفا کی امید کر سکتا ہے وہ اس منحوس لڑکی سے بالکل درست نفرت کرتا ہے۔
”آصفہ آپی آپ کے ہی کیا میری بیٹیوں کا حق بھی یہ پری چھین رہی ہے ،اماں کو اس کے سوا کوئی نظر نہیں آتا ہے۔“ صباحت بھی ان کا ساتھ دیتیں۔
”تم سب کی اولادوں پر ماں اور باپ کا سایہ سدا سلامت رہے ،اس ننھی پارس کیلئے تو میں ہی ماں ہوں اور میں ہی باپ ہوں۔ تم لوگ اپنی اپنی بولیاں بولتے رہو ،جس کی پروا میری جوتی کو بھی نہیں اور کان صاف کرکے سن لو آخری سانس تک میں پری کو خود سے جدا نہیں کروں گی۔
“ دادی کی بارعب و پرعزم آواز اس کی سماعتوں میں گونج رہی تھی۔ کئی سال گزر گئے تھے مگر ان کا جاہ و جلال و بارعب آواز میں معمولی سی بھی کمی واقع نہ ہوئی تھی وہ اسی طرح صاف و کھری ،منہ در منہ بات کرتی تھیں۔ پہلی بار وہ دبدبہ و جلال آواز سے غائب ہو کر لہجے کو کمزور بنا گیا تھا پری ان کے بے سدھ چہرے کو دیکھتے ہوئے رو رہی تھی بے آواز ،بلا جنبش ماضی کی ڈائری سے کئی ورق اس کی نگاہوں میں لہرا رہے تھے دادی کی بے تحاشہ محبت ،بے انتہا پیار اس کو یاد آ رہا تھا وہ اس کی خاطر اپنی بیٹیوں کو بھی خاطر میں نہ لاتی تھیں اور آج وہ اس سے غافل تھیں اور ان کی یہی خاموشی اس کے دل کے ٹکڑے کر رہی تھی۔
”پلیز… ڈون ویپ۔“ معاً اس کے شانے پر مضبوط ہاتھ ٹھہرا۔
”آپ… آپ کب آئے؟“ اپنے قریب کھڑے شیری کو دیکھ کر وہ اس کا ہاتھ ہٹاتے ہوئے سنجیدگی سے استفسار کرنے لگی۔
”کچھ ہی دیر ہوئی ہے کس دنیا میں گم تھیں آپ… اتنی گہری سوچ میں ڈوبی تھیں کہ میرے آنے کی خبر نہ ہوئی آپ کو؟“ وہ مقابل آ کر اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا کہہ رہا تھا۔
”درست کہہ رہے ہیں آپ ،میں ماضی کے جھروکوں میں جھانک رہی تھی۔“
”بے حد اپ سیٹ لگ رہی ہیں آپ کیوں؟ اب تو دادی جان کی طبیعت تیزی سے بہتر ہو رہی ہے چند دنوں میں ڈاکٹرز دادی کو ڈسجارج کر دیں گے ،میں ابھی وہاں سے ہی آ رہا ہوں۔“
”رئیلی دادی جان کی طبیعت سے ڈاکٹر مطمئن ہیں؟“ وہ یکدم خوشی سے مسکرا کر بولی۔
”جی ہاں ،ڈاکٹر مطمئن تو ہیں لیکن کچھ پریشان بھی ہیں کیوں نہ ہم یہاں سے باہر چلتے ہیں یہاں ہماری آواز سے دادی ڈسٹرب ہو سکتی ہیں۔
“ معاً وہ چونک کر گویا ہوا۔
”یہ کیا بات کی آپ نے… ڈاکٹرز بھلا پریشان کیوں ہونے لگے؟“
”بتاتا ہوں آپ یہاں سے باہر تو چلئے۔“ اس نے اصرار کیا پری نے دادی کی طرف دیکھا وہ گہری نیند سو رہی تھیں وہ گیٹ بند کرتی ہوئی باہر نکل آئی تھی۔ کوریڈور میں سناٹا چھایا ہوا تھا ،سائیڈ میں بنے کاؤنٹر پر نرسیں موجود تھیں شیری اس سے چند قدم آگے چل رہا تھا ،کوریڈور سے ملحقہ ٹی شاپ تھی۔
شیری نے وہاں سے کافی خریدی اور دونوں لان میں گھاس پر بیٹھ گئے۔
شام کا سرمئی آنچل دھیرے دھیرے دھرتی پر لہراتا جا رہا تھا ،موسم نے کروٹ بدلی تھی فضا میں خاصی خنکی اترنے لگی تھی۔
”ڈاکٹرز دادی جان کی حالت سے مطمئن بھی ہیں اور نہیں بھی ،یہ بہت عجیب ہے شہریار صاحب! آپ صاف صاف بتایئے؟“ وہ کافی کے سپ لیتی ہوئی بردباری سے گویا ہوئی۔
”دادی کا کسی سے جھگڑا ہوا تھا؟“
”نہیں… دادی سے بھلا کون جھگڑ سکتا ہے لیکن آپ یہ سوال کیوں پوچھ رہے ہیں؟“ اس نے خاصی حیرانی سے دریافت کیا۔
”ڈاکٹرز کی رائے یہی ہے کہ دادی جان کو کوئی بڑا صدمہ پہنچا ہے کوئی اس طرح کی بات ہوئی ہے جس سے وہ اس بری طرح ہرٹ ہوئی ہیں کہ فوری طور پر ہارٹ اٹیک کا شکار ہو گئی ہیں۔“ شیری کو جو ڈاکٹر کی زبانی معلومات حاصل ہوئی تھیں اس نے وہ پری سے شیئر کرنے میں دیر نہ لگائی تھی جواباً پری چپ ہو گئی۔
دونوں خاموشی سے کافی پیتے رہے ،پری سوچ رہی تھی دادی نے ایسی کس بات کا صدمہ لیا جو ان کی جان پر بن آئی؟ اس کی ان فکروں سے بے خبر شیری چوری چوری اس کے دلکش چہرے کو دیکھتے ہوئے ان لمحوں کے امر ہو جانے کی دعائیں کر رہا تھا۔ اس کو پری کے ساتھ اس طرح بیٹھنا ،پری کا نرم لہجے میں بات کرنا ،اعتماد و بھروسے کی علامت تھی۔ وہ اس کا اعتماد جیتنے میں دیر سے سہی مگر کامیاب رہا تھا وگرنہ وہ اس کی پرچھائیں کو بھی نا پسند کرتی تھی ،بات کرنا تو درکنار اسے اس کی طرف دکھنا بھی گوارا نہ تھا۔
”اس طرح کی کوئی بات نہیں ہوئی ہے کسی سے بھی دادی جان کی۔“ خاصی دیر سوچنے کے بعد وہ نفی میں گردن ہلاتی ہوئی گویا ہوئی۔
”کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو ہو جاتی ہیں اور کسی کو پتا نہیں چلتا ،یہ بھی ممکن ہے آپ کو ایسی بات کا انہوں نے بتانا ضروری نہ سمجھا ہوا۔“
”دادی مجھ سے کوئی بات نہیں چھپاتی ہیں پھر وہ چھپائیں گی بھی کیوں اور ایسی کیا بات ہو گی جو وہ مجھ سے شیئر نہ کریں؟“ وہ سخت الجھن کا شکار ہو گئی تھی۔
”شاید آپ ہی کی کوئی بات ہو ،آپ کی ذات سے تعلق رکھتی ہو میری جب بھی ان سے گفتگو ہوتی تھی وہ آپ کے مستقبل کیلئے از حد فکر مند رہا کرتی تھیں آپ کے والدین کے درمیان ہونے والی علیحدگی نے ان کو آپ کے مستقبل سے خوف زدہ کر دیا ہے۔“ وہ اس کی قربت کی چاہ میں بات کو طول دے رہا تھا۔
”میری مما اور پپا کی علیحدگی کو لمبا عرصہ ہو چکا ہے دادی جان اب کیوں اس حقیقت کو محسوس کریں گی؟ اس سے میرے مستقبل کا کیا تعلق ہے؟ خیر تعلق ہو بھی تو میں پروا نہیں کرتی اور دادی کو بھی نہیں کرنے دوں گی۔
“ وہ رسٹ واچ دیکھتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی۔
”دادی جان بے دار نہ ہو گئی ہوں ،میں دیکھتی ہوں جا کر ان کو۔“
”اوکے میری طرف سے دادی جان کو سلام دیجئے گا ،ابھی میری میٹنگ ہے اس لئے جا رہا ہوں گھر واپسی سے پہلے یہاں سے ہوتا ہوا جاؤں گا۔“ وہ بھی رسٹ واچ دیکھتا ہوا بولا الوداعی جملوں کے بعد وہ گیٹ کی طرف بڑھ گیا ،پری روم کی طرف چلی آئی شہریار کو وہ ٹال گئی تھی۔
مگر اس کا دل شہریار کی کہی گئی بات کی تصدیق کر رہا تھا کوئی ایسی بات ضرور ہوئی تھی جس نے دادی کی یہ حالت کر دی تھی مگر وہ کیا بات ہے؟
”فرصت مل گئی تم کو یہاں آنے کی؟“ وہ کمرے میں داخل ہوئی تو دادی کے بیڈ کے قریب کرسی پر بیٹھا طغرل درشتگی بھرے لہجے میں اس سے مخاطب ہوا تھا۔
”میں صرف دس منٹ میں واپس آئی ہوں۔“ اس کے انداز پر وہ سراسیمہ ہوئی۔
”دس منٹ میں بہت کچھ ہو سکتا ہے دادی جان کو کسی طرح سے نقصان بھی پہنچ سکتا تھا ،ان کی ڈرپ میرے آتے ہی ختم ہوئی ہے ،نرس سے نیڈل نکلوائی تھی اگر میں ٹائم پر نہ آتا تو جانتی ہو کیا ہوتا؟“
”اوہ آئی ایم سوری ،دادی کی ڈرپ کا خیال تو بالکل میرے ذہن میں آیا نہیں ،شہریار مجھے کچھ بتانا چاہ رہے تھے میں جلدی میں ان کے ساتھ چلی گئی۔
“ بہت بڑی کوتاہی سرزد ہوئی تھی اس سے وہ سخت شرمندہ ہو گئی تھی۔
”تم ضد کرکے یہاں رکی رہو دادی جان کو دیکھ بھال کرنے کیلئے وگرنہ تم بخوبی جانتی ہو دادی کی حفاظت کرنے کیلئے لوگوں کی ہرگز کمی نہیں ہے پلیز اپنی ذمہ داری سمجھو ،دادی کی حالت ابھی اتنی بہتر نہیں ہوئی ہے کہ تم ان سے غافل ہو کر شہریار صاحب کی باتیں سننے کی خاطر ان کو تنہا چھوڑ کر چلی جاؤ۔
“ پنک کلر کی شرٹ میں اس کے چہرے کی سرخیاں کچھ زیادہ ہی نمایاں ہو رہی تھیں کچھ سرخی اس کی آنکھوں میں بھی چھلک آئی تھی۔
”شہریار سے میں کوئی گپیں نہیں لگا رہی تھی وہ بھی دادی جان کے متعلق گفتگو کر رہے تھے ،پوچھ رہے تھے مجھ سے دادی جان کا کسی سے جھگڑا ہوا ہے؟ میں نے کہہ دیا دادی جان سے کون جھگڑ سکتا ہے تو کہنے لگے ڈاکٹرز کی رائے ہے کہ دادی جان کو کوئی ایسا گہرا صدمہ لگا ہے جس سے ان کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے“ اس نے بہت تحمل سے شہریار سے کی جانے والی گفتگو دہرا دی تھی۔
”یہ بات مجھ سے بھی ڈاکٹرز نے ڈسکس کی تھی میں نے ڈنائی کر دیا تھا پھر چچا جان نے صباحت آنٹی عامرہ اور آصفہ پھوپھوؤں سے بھی پوچھا شاید آپس میں کوئی ایسا اختلاف ہوا ہو جو دادی جان برداشت نہ کر سکی ہوں ان لوگوں نے حلف اٹھا کر کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی ہے اور ان کی بات پر مجھے بھی یقین ہے وہ ایسی گھٹیاں حرکت نہیں کر سکتیں جس سے دادی جان کی ایسی حالت ہو جائے۔
“ اس کا لہجہ الجھا الجھا تھا۔ کچھ توقف ان کے درمیان خاموشی طاری رہی پھر وہ گویا ہوا۔
”جس وقت دادی کی طبیعت خراب ہوئی کون تھا روم میں؟“
”خیرون ڈسٹنگ کر رہی تھی میں لاؤنج میں عائزہ کے ساتھ بیٹھی تھی ،خیرون کے چیخنے پر ہی طبیعت کا معلوم ہوا تھا پھر اس ٹائم کوئی اور روم میں تھا ہی نہیں۔“ اس کی بات پر اس نے گہرا سانس لیا اس کے چہرے کے نقوش سے پریشانی و تفکر جھانک رہا تھا۔
وہ ڈھیلے انداز میں صوفے پر بیٹھ گیا تھا سر صوفے کی پشت گاہ سے لگا کر آنکھیں بند کر لی تھیں۔
پری دادی کے بیڈ کے قریب رکھی چیئر پر بیٹھ گئی وہ دادی کے چہرے کو دیکھنے لگی جہاں ایک گہری خاموشی طاری تھی ،سفید پلکیں ایک دوسرے سے پیوست تھیں ہلکے گلابی مائل ہونٹوں پر جامد خاموشی تھی ،دائیں ہاتھ میں ڈرپ لگی تھی جو قطرہ قطرہ بے حد ست روی سے ان کی رگوں میں منتقل ہو رہی تھی اور اس کو لگا زندگی بھی اس طرح سست روی کا شکار بن گئی ہے۔

   1
0 Comments